عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے
حسن بے پردا نہیں ہوتا مگر دستور ہے
خستگی نے کر دیا اس کو رگ جاں سے قریب
جستجو ظالم کہے جاتی تھی منزل دور ہے
لے اسی ظلمت کدہ میں اس سے محرومی کی داد
اس سے آگے اے دل مضطر حجاب نور ہے
لب پہ موج حسن جب چمکے تبسم نام ہو
رب ارنی کہہ کے چیخ اٹھوں تو برق طور ہے
نور آنکھوں میں اسی کا جلوہ خود نور محیط
دید کیا ہے کچھ تلاطم میں ہجوم نور ہے
آنکھ ہے جب محو حیرت تو نمایاں ہے وہی
فکر ہو جب کار فرما تو وہی مستور ہے
دیکھتا ہوں میں کہ ہے بحر حقیقت جوش پر
جو حباب اٹھ اٹھ کے مٹتا ہے سر منصور ہے
غزل
عشق ہے اک کیف پنہانی مگر رنجور ہے
اصغر گونڈوی