عشق رخ و زلف میں کیا کوچ
شب آ کے رہا سحر کیا کوچ
خیاط نفس کا ہے بجا کوچ
درزی کا ہے کیا مقام کیا کوچ
جب موج رواں کہیں نہ ٹھہری
دم لے کے حباب کر گیا کوچ
ہر دم ہے روا نہ عمر انساں
ہر ایک نفس ہے کر رہا کوچ
پروانہ جلا تو شمع بولی
تیرا ہے ادھر ادھر مرا کوچ
وہ سوزن ساعت رواں ہوں
کرتی ہے جو ہر منٹ سدا کوچ
گھنگھرو دم نزع بولتا ہے
آواز جرس نے دی ہوا کوچ
ہم ساتھ تھے پا شکستہ جس کے
لشکر وہ جہاں سے کر گیا کوچ
شب بھر ہے فروغ شعلہ اے شادؔ
ہنگام سحر ہے شمع کا کوچ
غزل
عشق رخ و زلف میں کیا کوچ
شاد لکھنوی