عشق بتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی
اپنے خدا کو ہم نے پکارا کبھی کبھی
آسودۂ خاطر ہی نہیں مطمح وفا
غم بھی کیا ہے ہم نے گوارا کبھی کبھی
اس انتہائے ترک محبت کے باوجود
ہم نے لیا ہے نام تمہارا کبھی کبھی
طوفاں کا خوف ہے ابھی شاید کرشمہ کار
آتا ہے سامنے جو کنارا کبھی کبھی
تنہا روی نے رکھی ہمارے جنوں کی لاج
گو اہل کارواں نے پکارا کبھی کبھی
اب کیا کہیں دل متلون مزاج کو
اکثر یہ آپ کا ہے ہمارا کبھی کبھی
پیہم ستم سے عشق کی تسکین ہو نہ جائے
اے دوست التفات خدارا کبھی کبھی
فریاد غم سے عرشؔ سنبھلتا ہے دل مگر
لیتے ہیں اہل دل یہ سہارا کبھی کبھی
غزل
عشق بتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی
عرش ملسیانی