عشق بتاں کا جب سے مجھے ڈھنگ آ گیا 
ہاتھوں سے میرے دست جنوں تنگ آ گیا 
کس شوق سے یہ بزم میں کہتا ہے دل مرا 
مطرب کے ساتھ بن کے یہاں چنگ آ گیا 
ڈرنا عبث ہے خار مغیلاں سے اب مجھے 
منزل میں عشق کے کئی فرسنگ آ گیا 
جی چاہتا ہے پھینک دوں پہلو سے میں اسے 
بیتابیوں سے دل کی تو میں تنگ آ گیا 
منظور شیشۂ دل عاشق ہے توڑنا 
جو ہاتھ میں لیے ہوئے وہ سنگ آ گیا 
پامال تم نے گر دل عاشق نہیں کیا 
تلووں میں کیوں نہ خون کا پھر رنگ آ گیا 
کس طرح لوگ کوئے بتاں تک چلے گئے 
میرے تو ہر قدم پہ وہاں سنگ آ گیا 
سن کر غزل کو میری جمیلہؔ نے یہ کہا 
اس میں تو صوفیانہ بھی کچھ رنگ آ گیا
        غزل
عشق بتاں کا جب سے مجھے ڈھنگ آ گیا
جمیلہ خدا بخش

