عشق اور عشق کے آداب کا کیا کرنا ہے
تو نہیں ہے تو کسی خواب کا کیا کرنا ہے
جب ترا نام مرے نام کے ساتھ آیا نہیں
حرف کا لفظ کا اعراب کا کیا کرنا ہے
اب سمندر ہے نہ پر ہیں نہ شب چار دہم
اب تری آنکھ کے مہتاب کا کیا کرنا ہے
اک یہی چادر ہجراں مجھے دے کر اس نے
کہہ کے رخصت کیا اسباب کا کیا کرنا ہے
کترنیں رنج کی سانسوں میں گرہ ڈالتی ہیں
اب کسی ریشم و کمخواب کا کیا کرنا ہے
آسماں چشم برابر بھی نہ تارا کوئی
اب بتا روزن خوش تاب کا کیا کرنا ہے

غزل
عشق اور عشق کے آداب کا کیا کرنا ہے
قیوم طاہر