اس زمیں آسماں کے تھے ہی نہیں
رابطے درمیاں کے تھے ہی نہیں
ہم سے مٹی مہک گئی کیسے
ہم تو اس خاکداں کے تھے ہی نہیں
کیسے کرتے رقم حدیث دل
واقعے سب بیاں کے تھے ہی نہیں
ہم وہ کردار کیسے بن جاتے
جب تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان سے تہذیب کی توقع تھی
وہ جو اردو زباں کے تھے ہی نہیں
غزل
اس زمیں آسماں کے تھے ہی نہیں
فاروق بخشی