اس وہم کی انتہا نہیں ہے
سب کچھ ہے مگر خدا نہیں ہے
کیا اس کا سراغ کوئی پائے
جس چیز کی ابتدا نہیں ہے
کھلتا ہی نہیں فریب ہستی
کچھ بھی نہیں اور کیا نہیں ہے
اس طرح ستم وہ کر رہے ہیں
جیسے میرا خدا نہیں ہے
تم خوش ہو تو ہے مجھے ندامت
ہر چند مری خطا نہیں ہے
دیکھو تو نگاہ واپسیں کو
اس ایک نظر میں کیا نہیں ہے
دنیا کا بھرم نہ کھول اے آہ
یہ راز ابھی کھلا نہیں ہے
ہر ذرہ ہے شاہد تجلی
اس حسن کی انتہا نہیں ہے
سرگرم تلاش رہنے والے
تیرا بھی کہیں پتا نہیں ہے
امڈا ہے جو دل عزیزؔ رو لو
آنسو کوئی روکتا نہیں ہے
غزل
اس وہم کی انتہا نہیں ہے
عزیز لکھنوی