اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں
ہم نے جس رستے پر اس کو چھوڑا ہے
پھول ابھی تک اس پر کھلتے جاتے ہیں
دن میں کرنیں آنکھ مچولی کھیلتی ہیں
رات گئے کچھ جگنو ملنے جاتے ہیں
دیکھتے دیکھتے اک گھر کے رہنے والے
اپنے اپنے خانوں میں بٹ جاتے ہیں
دیکھو تو لگتا ہے جیسے دیکھا تھا
سوچو تو پھر نام نہیں یاد آتے ہیں
کیسی اچھی بات ہے زہرہؔ تیرا نام
بچے اپنے بچوں کو بتلاتے ہیں
غزل
اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
زہرا نگاہ