اس اجڑے شہر کے آثار تک نہیں پہنچے
مؤرخین دل زار تک نہیں پہنچے
تمام عمر مسافت میں کٹ گئی اپنی
مگر ہنوز در یار تک نہیں پہنچے
پٹی پڑی ہیں تہیں سوچ کے سمندر کی
کئی گہر لب اظہار تک نہیں پہنچے
کئی تراشنے کے درمیان ٹوٹ گئے
تمام سنگ تو شہکار تک نہیں پہنچے
تمام گلشن امکاں نثار ہے تجھ پر
مگر وہ پھول جو مہکار تک نہیں پہنچے
ہم اپنے عہد کے یوسف ضرور ہیں لیکن
کنوئیں میں قید ہیں بازار تک نہیں پہنچے
امیرؔ ہم نے صلیبوں کا انتخاب کیا
مگر کبھی کسی دربار تک نہیں پہنچے

غزل
اس اجڑے شہر کے آثار تک نہیں پہنچے
رؤف امیر