EN हिंदी
اس توقع پہ کھلا رکھا گریباں اپنا | شیح شیری
is tawaqqoa pe khula rakkha gareban apna

غزل

اس توقع پہ کھلا رکھا گریباں اپنا

ناصر زیدی

;

اس توقع پہ کھلا رکھا گریباں اپنا
جانے کب آن ملے جان بہاراں اپنا

لمحے لمحے کی رفاقت تھی کبھی وجہ نشاط
موسم ہجر ہوا اب سر و ساماں اپنا

نت نئے خواب دکھاتا ہے اجالوں کے لئے
وہ کہ ہے دشمن جاں دشمن ایماں اپنا

نکہت گل ہی نہیں خاک بھی ہے ہم کو عزیز
اپنا صحرا ہے چمن اپنا خیاباں اپنا

دیکھ لیتی ہے جہاں عزم و یقیں کے پیکر
رخ بدلتی ہے وہاں گردش دوراں اپنا

یہ تو مانا کہ ہوئی عشق میں رسوائی بہت
ہو گیا نام غزل میں تو نمایاں اپنا

اس سے بچھڑے ہیں تو محسوس ہوا ہے ناصرؔ
حال اتنا تو نہ تھا پہلے پریشاں اپنا