اس طرح سوئی ہیں آنکھیں جاگتے سپنوں کے ساتھ
خواہشیں لپٹی ہوں جیسے بند دروازوں کے ساتھ
رات بھر ہوتا رہا ہے اس کے آنے کا گماں
ایسے ٹکراتی رہی ٹھنڈی ہوا پردوں کے ساتھ
ایک لمحے کا تعلق عمر بھر کا روگ ہے
دوڑتے پھرتے رہو گے بھاگتے لمحوں کے ساتھ
میں اسے آواز دے کر بھی بلا سکتا نہ تھا
اس طرح ٹوٹے زباں کے رابطے لفظوں کے ساتھ
ایک سناٹا ہے پھر بھی ہر طرف اک شور ہے
کتنے چہرے آنکھ میں پھیلے ہیں آوازوں کے ساتھ
جانی پہچانی ہیں باتیں جانے بوجھے نقش ہیں
پھر بھی ملتا ہے وہ سب سے مختلف چہروں کے ساتھ
دل دھڑکتا ہی نہیں ہے اس کو پا کر بھی نسیمؔ
کس قدر مانوس ہے یہ نت نئے صدموں کے ساتھ
غزل
اس طرح سوئی ہیں آنکھیں جاگتے سپنوں کے ساتھ
افتخار نسیم