اس طرح رخ پھیرتے ہو سنتے ہی بوسے کی بات
شاہ معشوقاں کے آگے کیا ہے یہ ایتی بساط
کیوں نہ دوڑے تب دوانا ہو کے مجنوں دشت کوں
جب لکھی ہو عاشقاں کی شاخ آہو پہ برات
جھلجھلاتی ہے مہیں جامے سیں تیرے تن کی جوت
ماہ کا خرمن ہے اے خورشید رو تیرا یوگات
سو گرہ تھی دل میں میرے خوشۂ انگور جوں
ایک پیالے سیں کیا ساقی نیں حل مشکلات
کچھ کہو یکروؔ پیا در سیں ترے ٹلتا نہیں
بوجھتا ہے ایک یہ گھر جانتا نہیں پانچ سات
غزل
اس طرح رخ پھیرتے ہو سنتے ہی بوسے کی بات
عبدالوہاب یکروؔ