EN हिंदी
اس طرح کرتے ہیں کچھ لوگ بڑائی اس کی | شیح شیری
is tarah karte hain kuchh log baDai uski

غزل

اس طرح کرتے ہیں کچھ لوگ بڑائی اس کی

جاوید شاہین

;

اس طرح کرتے ہیں کچھ لوگ بڑائی اس کی
خلق اس کی ہے خدا اس کا خدائی اس کی

کیا خبر تھی کہ یہیں وصل کے سائے کے قریب
دھوپ کے بیچ پڑی ہوگی جدائی اس کی

لے گئے شوق سے مرحوم کی ہر شے احباب
چھوڑ دی طاق کے اوپر ہی اچھائی اس کی

کی ہے افلاس میں دوشیزۂ امید جواں
اب تو بس بیٹھ کے کھانی ہے کمائی اس کی

زندگی کٹتی ہے دونوں کی مسلسل ضد میں
قید ہے میری وہی جو ہے رہائی اس کی

معتبر نام تھا وہ پھر بھی حوالہ نہ دیا
جاں بچانے کو قسم جھوٹی نہ کھائی اس کی

زندگی ساری گنوا دوں یہ ضروری تو نہیں
یہ بہت ہے کہ کوئی بات نبھائی اس کی

یہ محبت نہیں کچھ اور ہے صورت شاہیںؔ
تم مزہ لے کے جو سنتے ہو برائی اس کی