اس طرح درد کا تم اپنے مداوا کرنا
یاد ماضی کو چراغ رہ فردا کرنا
تیری دزدیدہ نگاہی کے میں سو بار نثار
دیکھنے والے اسی چاہ سے دیکھا کرنا
حشر تک جینے کا ارمان لیے بیٹھا ہوں
تم ذرا زیست کے اسباب مہیا کرنا
خواہش دید کی توہین ہے جلووں کا خیال
میری نظروں کا تقاضا ہے کہ پردا کرنا
ایک احسان ہے قدرت کی جفا کاری پر
اس کی دنیا میں بھی جینے کی تمنا کرنا
میری تسکیں کے لیے پھر کوئی وعدہ کیجے
آپ پر فرض نہیں وعدہ کا ایفا کرنا
حسن بیتاب ہو خود وصل کی خاطر اے حبیبؔ
عشق کو چاہئے انداز وہ پیدا کرنا

غزل
اس طرح درد کا تم اپنے مداوا کرنا
حبیب آروی