EN हिंदी
اس سوچ میں ہی مرحلۂ شب گزر گیا | شیح شیری
is soch mein hi marhala-e-shab guzar gaya

غزل

اس سوچ میں ہی مرحلۂ شب گزر گیا

شہرام سرمدی

;

اس سوچ میں ہی مرحلۂ شب گزر گیا
در وا کیا تو کس لیے سایہ بکھر گیا

تا دیر اپنے ساتھ رہا میں زمانے بعد
بے نام سا سکوت تھا جب رات گھر گیا

رکھتا تھا حکم موت کا جو راہ وصل میں
وہ لمحۂ فراق مرے ڈر سے مر گیا

سب رونقیں بضد تھیں جہاں گھر بنانے کو
وہ قریۂ وجود خلاؤں سے بھر گیا

میں باندھ ہی رہا تھا غزل میں اسے ابھی
وہ زینۂ خیال سے نیچے اتر گیا