اس سوچ میں ہی مرحلۂ شب گزر گیا
در وا کیا تو کس لیے سایہ بکھر گیا
تا دیر اپنے ساتھ رہا میں زمانے بعد
بے نام سا سکوت تھا جب رات گھر گیا
رکھتا تھا حکم موت کا جو راہ وصل میں
وہ لمحۂ فراق مرے ڈر سے مر گیا
سب رونقیں بضد تھیں جہاں گھر بنانے کو
وہ قریۂ وجود خلاؤں سے بھر گیا
میں باندھ ہی رہا تھا غزل میں اسے ابھی
وہ زینۂ خیال سے نیچے اتر گیا

غزل
اس سوچ میں ہی مرحلۂ شب گزر گیا
شہرام سرمدی