اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے
ایسا نہ ہو زمیں کا جواب آسمان دے
پڑھنا ہے تو نوشتۂ بین السطور پڑھ
تحریر بے حروف کے معنی پہ دھیان دے
سورج تو کیا بجھے گا مگر اے ہوائے مہر
تپتی زمیں پہ ابر کی چادر ہی تان دے
اب دھوپ سے گریز کرو گے تو ایک دن
ممکن ہے سایہ بھی نہ کوئی سائبان دے
میں سوچتا ہوں اس لیے شاید میں زندہ ہوں
ممکن ہے یہ گمان حقیقت کا گیان دے
میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف
تو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے
سورج کے گرد گھوم رہا ہوں زمیں کے ساتھ
اس گردش مدام سے مجھ کو امان دے
میں تنگیٔ مکان سے نہ ہو جاؤں تنگ دل
اپنی طرح مجھے بھی کوئی لا مکان دے
میری گواہی دینے لگی میری شاعری
یا رب مرے سخن کو وہ حسن بیان دے
غزل
اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے
حمایت علی شاعرؔ