EN हिंदी
اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے | شیح شیری
is se pahle ki mujhe waqt alahida rakh de

غزل

اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے

نثار ناسک

;

اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے
میرے ہونٹوں پہ مرے نام کا بوسہ رکھ دے

حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک
اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے

روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں
اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے

تو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ
میری پلکوں پہ شب ہجر یہ تارا رکھ دے

مجھ سے لے لے مرے قسطوں پہ خریدے ہوئے دن
میرے لمحے میں مرا سارا زمانہ رکھ دے

ہم جو چلتے ہیں تو خود بنتا چلا جاتا ہے
لاکھ مٹی میں چھپا کر کوئی رستہ رکھ دے

ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے