EN हिंदी
اس سے آگے تو بس لا مکاں رہ گیا | شیح شیری
is se aage to bas la-makan rah gaya

غزل

اس سے آگے تو بس لا مکاں رہ گیا

انجم سلیمی

;

اس سے آگے تو بس لا مکاں رہ گیا
یہ سفر بھی مرا رائیگاں رہ گیا

ہو گئے اپنے جسموں سے بھی بے نیاز
اور پھر بھی کوئی درمیاں رہ گیا

راکھ پوروں سے جھڑتی گئی عمر کی
سانس کی نالیوں میں دھواں رہ گیا

اب تو رستہ بتانے پہ مامور ہوں
بے ہدف تیر تھا بے کماں رہ گیا

جب پلٹ ہی چلے ہو اے دیدہ ورو
مجھ کو بھی دیکھنا میں کہاں رہ گیا

مٹ گیا ہوں کسی اور کی قبر میں
میرا کتبہ کہیں بے نشاں رہ گیا