اس سے آگے تو بس لا مکاں رہ گیا
یہ سفر بھی مرا رائیگاں رہ گیا
ہو گئے اپنے جسموں سے بھی بے نیاز
اور پھر بھی کوئی درمیاں رہ گیا
راکھ پوروں سے جھڑتی گئی عمر کی
سانس کی نالیوں میں دھواں رہ گیا
اب تو رستہ بتانے پہ مامور ہوں
بے ہدف تیر تھا بے کماں رہ گیا
جب پلٹ ہی چلے ہو اے دیدہ ورو
مجھ کو بھی دیکھنا میں کہاں رہ گیا
مٹ گیا ہوں کسی اور کی قبر میں
میرا کتبہ کہیں بے نشاں رہ گیا
غزل
اس سے آگے تو بس لا مکاں رہ گیا
انجم سلیمی