EN हिंदी
اس سمندر پہ اک الزام ہی دھر جانا ہے | شیح شیری
is samundar pe ek ilzam hi dhar jaana hai

غزل

اس سمندر پہ اک الزام ہی دھر جانا ہے

رزاق عادل

;

اس سمندر پہ اک الزام ہی دھر جانا ہے
پاس ساحل کے مجھے پیاس سے مر جانا ہے

کیوں دکھاتے ہو شکستہ سے پرانے رستے
مجھ کو تو اک نئے سپنوں کے نگر جانا ہے

آخری موڑ پہ پہنچی ہے کہانی لیکن
ڈھل گئی رات چلو لوٹ کے گھر جانا ہے

بیچ میں لفظ تھے ترسیل کی ناکامی تھی
میں نے اس کو مجھے اس نے بھی دگر جانا ہے

اتنی آسان نہیں شاعری عادلؔ صاحب
لفظ و معنی کے سمندر میں اتر جانا ہے