EN हिंदी
اس صدی کا جب کبھی ختم سفر دیکھیں گے لوگ | شیح شیری
is sadi ka jab kabhi KHatm-e-safar dekhenge log

غزل

اس صدی کا جب کبھی ختم سفر دیکھیں گے لوگ

رمز عظیم آبادی

;

اس صدی کا جب کبھی ختم سفر دیکھیں گے لوگ
وقت کے چہرے پہ خاک رہ گزر دیکھیں گے لوگ

تخم ریزی کر رہا ہوں میں اسی امید پر
پھولتے پھلتے ہوئے کل یہ شجر دیکھیں گے لوگ

عقل انسانی کی جس دن انتہا ہو جائے گی
ختم ہوتے چاند سورج کا سفر دیکھیں گے لوگ

کانچ کی دیوار پتھر کے ستوں لوہے کی چھت
ہر جگہ ہر شہر میں ایسا ہی گھر دیکھیں گے لوگ

جرأت پرواز کے انجام سے واقف ہوں میں
خون میں ڈوبا ہوا یہ بال و پر دیکھیں گے لوگ

کیا اسی دن کے لیے مانگی تھی پھولوں کی دعا
شبنمی موسم میں بھی رقص شرر دیکھیں گے لوگ

ختم ہم پر ہیں شب زنداں کی ساری سختیاں
ذہن و دل آزاد ہوگا وہ سحر دیکھیں گے لوگ

انجمن کو فیض پہنچائے گی شمع انجمن
کیا حسیں ہوتی ہے عمر مختصر دیکھیں گے لوگ

رمزؔ میں اپنی زباں سے کچھ نہیں بتلاؤں گا
کس طرف اٹھتی ہے یہ میری نظر دیکھیں گے لوگ