EN हिंदी
اس راز کے باطن تک پہنچا ہی نہیں کوئی | شیح شیری
is raaz ke baatin tak pahuncha hi nahin koi

غزل

اس راز کے باطن تک پہنچا ہی نہیں کوئی

فرخ جعفری

;

اس راز کے باطن تک پہنچا ہی نہیں کوئی
کیوں لوٹ کے گھر اپنے آیا ہی نہیں کوئی

اب شہر کی خاموشی ویرانے سے ملتی ہے
آواز لگائی تو بولا ہی نہیں کوئی

ہر روز دکھائی دیں سب لوگ وہیں لیکن
جب ڈھونڈنے نکلیں تو ملتا ہی نہیں کوئی

ہونے سے کہ جن کے تھا بستی کا بھرم قائم
اطراف میں شہروں کے صحرا ہی نہیں کوئی

تھک ہار کے آ بیٹھے اس پیڑ تلے آخر
جس پیڑ تلے فرخؔ سایہ ہی نہیں کوئی