اس راز کے باطن تک پہنچا ہی نہیں کوئی
کیوں لوٹ کے گھر اپنے آیا ہی نہیں کوئی
اب شہر کی خاموشی ویرانے سے ملتی ہے
آواز لگائی تو بولا ہی نہیں کوئی
ہر روز دکھائی دیں سب لوگ وہیں لیکن
جب ڈھونڈنے نکلیں تو ملتا ہی نہیں کوئی
ہونے سے کہ جن کے تھا بستی کا بھرم قائم
اطراف میں شہروں کے صحرا ہی نہیں کوئی
تھک ہار کے آ بیٹھے اس پیڑ تلے آخر
جس پیڑ تلے فرخؔ سایہ ہی نہیں کوئی
غزل
اس راز کے باطن تک پہنچا ہی نہیں کوئی
فرخ جعفری