اس قدر محو تصور ہوں ستم گر تیرا
مجھ کو غربت میں نظر آنے لگا گھر تیرا
نشۂ مے کی بجھی پیاس نہ کچھ بھی افسوس
نام سنتے تھے بڑا چشمۂ کوثر تیرا
اپنے پامالیٔ دل کا مجھے افسوس نہیں
دیکھ ظالم نہ بگڑ جائے کہیں گھر تیرا
وہ بھی ہیں لوگ جو ہم بزم رہا کرتے تھے
ہم تو جیتے ہیں فقط نام ہی لے کر تیرا
جلوۂ طور کو کچھ اس کی نظر سے بھانپا
جس نے دیکھا ہے جمال رخ انور تیرا
زندگی اس کی نصیب اس کے ہیں راتیں اس کی
جس کو ہو جلوۂ دیدار میسر تیرا
ہم نے کوشش تو بہت کی تھی اسے لانے کی
اے فروغؔ جگر افگار مقدر تیرا

غزل
اس قدر محو تصور ہوں ستم گر تیرا
فروغ حیدرآبادی