اس قدر کیں جذبۂ الفت کی پردہ پوشیاں
ڈس رہی ہیں آج خود مجھ کو مری خاموشیاں
کون سے صحرا کے کانٹے بچھ گئے ہیں راہ میں
کون سی منزل پہ آ کر لٹ گئیں گل پوشیاں
کیا ہوا وہ سوز فرقت اور سرور انتظار
دل سے تیری یاد کی دن رات ہم آغوشیاں
ہر اک آہٹ پر ترے آنے کا ہوتا تھا گماں
خاک میں سب مل گئیں ہیں وہ ہمہ تن گوشیاں
پھیکی پھیکی ہو گئی ہے اب تری تحریر بھی
رنجش پیہم نے تیری چھین لیں مے نوشیاں
بد گمانی کی ہوا سے گل نہ ہو شمع وفا
ذہن و دل میں ہو رہی ہیں آج یہ سرگوشیاں
عمر بھر کا غم بنی ہے نورؔ وہ پل کی خوشی
ہوش کے عالم میں بھی چھانے لگیں بے ہوشیاں
غزل
اس قدر کیں جذبۂ الفت کی پردہ پوشیاں
نور فاطمہ نور