اس قدر غرق لہو میں یہ دل زار نہ تھا
جب حنا سے ترے پاؤں کو سروکار نہ تھا
حسن کا جذب زلیخا ستی کچھ چل نہ سکا
ورنہ یہ پاک گہر قابل بازار نہ تھا
دل میں زاہد کے جو جنت کی ہوا کی ہے ہوس
کوچۂ یار میں کیا سایۂ دیوار نہ تھا
دل مرا عشق کے دھڑکوں سے موا جاتا ہے
یہ وہ دل ہے کہ کوئی ایسا جگر دار نہ تھا
آپ سے کیوں نہ ہوا کہہ کے یقیںؔ کو مارا
راست پوچھو تو کوئی مجھ سا گنہ گار نہ تھا
غزل
اس قدر غرق لہو میں یہ دل زار نہ تھا
انعام اللہ خاں یقینؔ