اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو
بھولنے پائے نہ اس دشت کی وحشت دل سے
شہر کے بیچ رہو باغ میں آہو رکھو
خشک ہو جائے گی روتے ہوئے صحرا کی طرح
کچھ بچا کر بھی تو اس آنکھ میں آنسو رکھو
روشنی ہوگی تو آ جائے گا رہرو دل کا
اس کی یادوں کے دیے طاق میں ہر سو رکھو
یاد آئے گی تمہاری ہی سفر میں اس کو
اس کے رومال میں اک اچھی سی خوشبو رکھو
اب وہ محبوب نہیں اپنا مگر دوست تو ہے
اس سے یہ ایک تعلق ہی بہر سو رکھو
غزل
اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
افتخار نسیم