EN हिंदी
اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں | شیح شیری
isMein koi fareb to ai aasman nahin

غزل

اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں

قمر جلالوی

;

اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں
بجلی وہاں گری ہے جہاں آشیاں نہیں

صیاد میں اسیر کہوں کس سے حال دل
صرف ایک تو ہے وہ بھی مرا ہم زباں نہیں

تم نے دیا ہماری وفاؤں کا کیا جواب
یہ ہم وہاں بتائیں گے تم کو یہاں نہیں

سجدے جو بت کدے میں کئے میری کیا خطا
تم نے کبھی کہا یہ مرا آستاں نہیں

گم کردہ راہ کی کہیں مٹی نہ ہو خراب
گرد اس طرف اڑی ہے جدھر کارواں نہیں

کیوں شمع انتظار بجھاتے ہو اے قمرؔ
نالے ہیں یہ کسی کے سحر کی اذاں نہیں