اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ
کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آ کے دیکھ
وہ دن ہوا ہوئے کہ بچھاتے تھے جان و دل
اب ایک بار اور ہمیں مسکرا کے دیکھ
پردہ پڑا ہوا ہے تبسم کے راز پر
پھولوں سے اوس آنکھ سے آنسو گرا کے دیکھ
یہ دوپہر بھی آئی ہے پرچھائیوں کے ساتھ
ویسے نظر نہ آئیں تو مشعل جلا کے دیکھ
گلچیں نے جب تمام شگوفوں کو چن لیا
کانٹے پکار اٹھے کہ ہمیں آزما کے دیکھ
تو میرا ہم سفر ہے تو پھر میرے ساتھ چل
ہے راہزن تو نقش قدم رہنما کے دیکھ
اپنی نظر سے دیکھ برہنہ حیات کو
آنکھوں سے یہ کتاب کی عینک ہٹا کے دیکھ
از راہ احتیاط سفر کو نہ ختم کر
یہ پھول ہیں کہ آگ قدم تو جما کے دیکھ
ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا
اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ
غزل
اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ
مظفر حنفی