اس خاکداں میں اب تک باقی ہیں کچھ شرر سے
دامن بچا کے گزرو یادوں کی رہ گزر سے
ہر ہر قدم پہ آنکھیں تھیں فرش راہ لیکن
وہ روشنی کا ہالا اترا نہ بام پر سے
کیوں جادۂ وفا پر مشعل بکف کھڑے ہو
اس سیل تیرگی میں نکلے گا کون گھر سے
کس دشت کی صدا ہو اتنا مجھے بتا دو
ہر سو بچھے ہیں رستے آؤں تو میں کدھر سے
اجڑا ہوا مکاں ہے یہ دل جہاں پہ ہر شب
پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے

غزل
اس خاکداں میں اب تک باقی ہیں کچھ شرر سے
شکیب جلالی