اس کا نہیں ہے غم کوئی، جاں سے اگر گزر گئے
دکھ کی اندھیری رات میں ہم بھی چراغ دھر گئے
شان و شکوہ کیا ہوئے، قیصر و جم کدھر گئے
تخت الٹ الٹ گئے، تاج بکھر بکھر گئے
فکر معاش نے سبھی جذبوں کو سرد کر دیا
سڑکوں پہ دن گزر گیا ہو کے نڈھال گھر گئے
لپٹے رہے تمام رات پھول کی پتیوں کے ساتھ
دھوپ پڑی جو پھول پر قطرے فرار کر گئے
تندیٔ سیل وقت میں یہ بھی ہے کوئی زندگی
صبح ہوئی تو جی اٹھے، رات ہوئی تو مر گئے
گرد سفر میں کھو گئے، ایسے ہزاروں راہرو
راہ میں جو ٹھہر گئے، آندھیوں سے جو ڈر گئے
پھر بھی کسی رئیس کے دل کی طرح ہے چشم تنگ
آپ پھرے ہیں ملک ملک آپ نگر نگر گئے
کھل کے رہیں گے دیکھنا چار سو روشنی کے پھول
رات کے دشت کی طرف نقش گر سحر گئے
خاک میں تیری مل گئی فیضؔ کے جسم کی ضیا
اب تو دیار مہوشاں قرض تمام اتر گئے
غزل
اس کا نہیں ہے غم کوئی، جاں سے اگر گزر گئے
حزیں لدھیانوی