EN हिंदी
اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے | شیح شیری
is ka nahin hai gham koi jaan se agar guzar gae

غزل

اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے

حزیں لدھیانوی

;

اس کا نہیں ہے غم کوئی جاں سے اگر گزر گئے
دکھ کی اندھیری قبر پر ہم بھی چراغ دھر گئے

شان و شکوہ کیا ہوئے قیصر و جم کدھر گئے
تخت الٹ الٹ گئے تاج بکھر بکھر گئے

فکر معاش نے سبھی جذبوں کو سرد کر دیا
سڑکوں پہ دن گزر گیا ہو کے نڈھال گھر گئے

تندیٔ سیل وقت میں یہ بھی ہے کوئی زندگی
صبح ہوئی تو جی اٹھے رات ہوئی تو مر گئے

گرد سفر میں کھو گئے ایسے ہزاروں راہ رو
راہ میں جو ٹھہر گئے آندھیوں سے جو ڈر گئے

آپ کا تو مقام تھا دل کے بلند تخت پر
آپ کو آج کیا ہوا دل سے مرے اتر گئے

کھل کے رہیں گے دیکھنا چار سو روشنی کے پھول
رات کے دشت کی طرف نقش گر سحر گئے

خاک میں تیری مل گئی فیضؔ کے جسم کی ضیا
اب تو دیار مہوشاں! قرض تمام اتر گئے