اس انکسار کا ادراک تجھ کو کم ہوگا
مرے چراغ کی لو میں بھی تھوڑا نم ہوگا
لپک پڑوں گا میں تصویر سے تری جانب
یہ تیری سمت مرا آخری قدم ہوگا
گزشتہ رات مجھے سیڑھیوں میں یاد آیا
تری تھکن کا سبب بھی کسی کا غم ہوگا
میں جانتا تھا مجھے روشنی ودیعت ہے
میں جانتا تھا مرے ہاتھ میں قلم ہوگا
ہمارے سانحے تہہ دار کر دیے گئے ہیں
ہماری تیرگی کا آگ سے جنم ہوگا
میں خشک جھیل میں سہمی ہوئی نمی ہوں دوست
مرا مچھیروں کے گیتوں سے خوف کم ہوگا
سفر میں اس کو اگر پیڑ کم پڑے آرشؔ
تو اس کا رستہ مرے راستے میں ضم ہوگا

غزل
اس انکسار کا ادراک تجھ کو کم ہوگا
سرفراز آرش