EN हिंदी
اس ہجوم بے اماں میں کوئی اپنا بھی تو ہو | شیح شیری
is hujum-e-be-aman mein koi apna bhi to ho

غزل

اس ہجوم بے اماں میں کوئی اپنا بھی تو ہو

اسحاق اطہر صدیقی

;

اس ہجوم بے اماں میں کوئی اپنا بھی تو ہو
میں گلے کس کو لگاؤں کوئی زندہ بھی تو ہو

برگ آوارہ ہوا نا آشنا بے مہر پھول
آتے جاتے موسموں میں کوئی ٹھہرا بھی تو ہو

سب گھروں میں لذت آسودگی ہے خیمہ زن
میں صدا کیا دوں یہاں پر کوئی سنتا بھی تو ہو

پھر سے شاخ دار پر کھلنے لگیں لالے کے پھول
پھر سے دنیا جاگ اٹھے کوئی ایسا بھی تو ہو

ٹوٹ جاتا آپ ہی بے درد سناٹے کا زور
خوف سے باہر نکل کر کوئی بولا بھی تو ہو

میں نے اس کو دل نواز و خوش ادا کیا کیا کہا
میری اس زندہ دلی کو کوئی سمجھا بھی تو ہو

میں بھی کہہ دیتا یہ میرے خواب کی تعبیر ہے
تیری تعبیروں میں میرا خواب بولا بھی تو ہو