اس دل سے مرے عشق کے ارماں کو نکالو
تحریر سے اوراق پریشاں کو نکالو
ممکن ہے تہی کر دو مجھے ہر کسی شے سے
ممکن ہو اگر دل سے اس ایماں کو نکالو
گر دور تلک باب کے امکان نہیں ہیں
دیوار میں اک روزن زنداں کو نکالو
جس کو ہے بھرم آج بھی پیمان وفا کا
سینہ سے مرے اس دل ناداں کو نکالو
پت جھڑ میں بھی ہر گل پہ بہار آئے یقیناً
گلشن سے اگر موسم ہجراں کو نکالو
تب جا کے لگا پاؤ گے دل اپنا خزاں سے
پہلے تو اس امید بہاراں کو نکالو
تنہائی چلی آئے کھلا جان کے اک در
پلکوں سے اگر یاد کے درباں کو نکالو
صحراؤں میں پھر دور تلک صاف ہے منظر
آنکھوں سے اگر ریت کے طوفاں کو نکالو
آشفتہ سروں پر بھی نظر جائے گی نایابؔ
گردن سے اگر سر بہ گریباں کو نکالو
غزل
اس دل سے مرے عشق کے ارماں کو نکالو
نتن نایاب