اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں
آباد یہ مکان کبھی ہے کبھی نہیں
غیروں کی بات کیا کہوں اس کی تو یاد میں
اپنا بھی مجھ کو دھیان کبھی ہے کبھی نہیں
وہ دن گئے جو کرتے تھے ہم متصل فغاں
اب آہ ناتوان کبھی ہے کبھی نہیں
جس آن میں رہے تو اسے جان مغتنم
یاں کی ہر ایک آن کبھی ہے کبھی نہیں
ایام وصل پر تو بھروسہ نہ کیجیو
یہ وقت میری جان کبھی ہے کبھی نہیں
عادت جو ہے ہمیشہ سے اس کی سو ہے غرض
وہ ہم پہ مہربان کبھی ہے کبھی نہیں
اس دوستی کا تیری تلون مزاجی سے
اپنے تئیں گمان کبھی ہے کبھی نہیں
مغرور ہوجیو نہ اس اوج و حشم پہ تو
یاں کی یہ عز و شان کبھی ہے کبھی نہیں
عاشق کہیں ہوا ہے حسنؔ کیا ہے اس کا حال
یہ آپ میں جوان کبھی ہے کبھی نہیں
غزل
اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں
میر حسن