اس دھوپ سے کیا گلہ ہے مجھ کو
سائے نے جلا دیا ہے مجھ کو
میں نالۂ سکوت سنگ کا ہوں
صحرا نے بہت سنا ہے مجھ کو
میں لفظ کی طرح بے زباں تھا
معنی نے ادا کیا ہے مجھ کو
ہر سچ کا نصیب سنگ ساری
اور سچ ہی سے واسطہ ہے مجھ کو
خائف نہیں مرگ ناگہاں سے
سینے کا وہ حوصلہ ہے مجھ کو
پتھر پہ مری صدا کا سایہ
آئینہ دکھا رہا ہے مجھ کو
آواز دے مجھ کو تیرگی میں
آواز ہی نقش پا ہے مجھ کو
غزل
اس دھوپ سے کیا گلہ ہے مجھ کو
شہاب جعفری