اس دور نے بخشے ہیں دنیا کو عجب تحفے
گھبرائے ہوئے پیکر اکتائے ہوئے چہرے
کچھ درد کے مارے ہیں کچھ ناز کے ہیں پالے
کچھ لوگ ہیں ہم جیسے کچھ لوگ ہیں تم جیسے
ہر گاؤں سہانا ہو ہر شہر چمک اٹھے
دل کی یہ تمنا ہے پوری ہو مگر کیسے
بپھری ہوئی دنیا نے پتھر تو بہت پھینکے
یہ شیش محل لیکن اے دوست کہاں ٹوٹے
یوں ہی تو نہیں بہتی یہ دھار لہو جیسی
اس بار فضاؤں سے خنجر ہی بہت برسے
کیوں آگ بھڑک اٹھی شاعر کے خیالوں کی
یہ راز کی باتیں ہیں نادان تو کیا جانے
سو بار سنا ہم نے سو بار ہنسی آئی
وہ کہتے ہیں پتھر کو ہم موم بنا دیں گے
پھر گوش تصور میں ابا کی صدا آئی
پھر اس نے در دل پہ آواز دی چپکے سے
اس خاک پہ بکھرا ہے اک پھول ہمارا بھی
جب باد صبا آئے کچھ دیر یہاں ٹھہرے
افسانہ نما کوئی روداد نہیں میری
جھانکا نہ کبھی میں نے خوابوں کے دریچے سے
مشکل ہے یہ دوراںؔ اس بھیڑ کو سمجھانا
مڑ مڑ کے جو رہزن سے منزل کا پتہ پوچھے
غزل
اس دور نے بخشے ہیں دنیا کو عجب تحفے
اویس احمد دوراں