اس دور میں سب اپنا چلن بھول گئے ہیں
حد یہ ہے کہ فن کار بھی فن بھول گئے ہیں
صیاد سنائیں تجھے کیوں کر وہی نغمے
ہم لہجہ ارباب چمن بھول گئے ہیں
ہے اپنی جگہ آج بھی ہر رسم زمانہ
لیکن ہمیں آئین وطن بھول گئے ہیں
منزل کے نشاں مر کے بھی وہ پا نہ سکیں گے
جو لوگ رہ دار و رسن بھول گئے ہیں
افسوس ملا ہے انہیں کب اذن رہائی
جب اہل قفس راہ چمن بھول گئے ہیں
کس طرح شکایت کریں بے تابئ دل کی
کیا ہم ترے ماتھے کی شکن بھول گئے ہیں
پرساں نہیں غربت میں مرا کوئی بھی کشفیؔ
شاید مجھے یاران وطن بھول گئے ہیں

غزل
اس دور میں سب اپنا چلن بھول گئے ہیں
کشفی لکھنؤی