اس دشت سے آگے بھی کوئی دشت گماں ہے
لیکن یہ یقیں کون دلائے گا کہاں ہے
یہ روح کسی اور علاقے کی مکیں ہے
یہ جسم کسی اور جزیرے کا مکاں ہے
کرتا ہے وہی کام جو کرنا نہیں ہوتا
جو بات میں کہتا ہوں یہ دل سنتا کہاں ہے
کشتی کے مسافر پہ یونہی طاری نہیں خوف
ٹھہرا ہوا پانی کسی خطرے کا نشاں ہے
جو کچھ بھی یہاں ہے ترے ہونے سے ہے ورنہ
منظر میں جو کھلتا ہے وہ منظر میں کہاں ہے
اس راکھ سے اٹھتی ہوئی خوشبو نے بتایا
مرتے ہوئے لوگوں کی کہاں جائے اماں ہے
یہ کار سخن کار عبث تو نہیں عامیؔ
یہ قافیہ پیمائی نہیں حسن بیاں ہے
غزل
اس دشت سے آگے بھی کوئی دشت گماں ہے
عمران عامی