EN हिंदी
اس دشت‌ ہلاکت سے گزر کون کرے گا | شیح شیری
is dasht-e-halakat se guzar kaun karega

غزل

اس دشت‌ ہلاکت سے گزر کون کرے گا

پرتو روہیلہ

;

اس دشت‌ ہلاکت سے گزر کون کرے گا
بے امن خرابوں میں سفر کون کرے گا

خورشید جو ڈوبیں گے ابھرنے ہی سے پہلے
اس تیرگیٔ شب کی سحر کون کرے گا

چھن جائیں سر راہ جہاں چادریں سر کی
اس ظلم کی نگری میں بسر کون کرے گا

جس دور میں ہو بے ہنری وجہ سیادت
اس دور میں تشہیر ہنر کون کرے گا

اڑ جائیں گے جنگل کی طرف سارے پرندے
مینارۂ لرزاں پہ بسر کون کرے گا

اس خوف مسلسل میں گزر ہوگی تو کیوں کر
سولی پہ ہر اک رات بسر کون کرے گا

مژدہ مجھے جینے کا بھلا کس نے دیا تھا
مجھ کو مرے مرنے کی خبر کون کرے گا