اس بے خودی میں رخصت خودداری ہو گئی ہے
مشکل ہوئی جو آساں دشواری ہو گئی ہے
اک داغ دل پہ بھی اب اپنا نہیں تصرف
یہ سب زمین گویا سرکاری ہو گئی ہے
اس بوجھ کی نہ پوچھو گٹھری ہے دل یہ جس کو
جتنا کیا ہے ہلکا کچھ بھاری ہو گئی ہے
شکوہ نہیں ستم کا پر اب یہ دیکھتا ہوں
تم کو ستم گری کی بیماری ہو گئی ہے
کوئی طلب نہ حسرت کچھ شوق ہے نہ عادت
اب تیری یاد میری لاچاری ہو گئی ہے
لہجہ کی پیروی سے تپتا ہے میرؔ کوئی
وہ میرؔ ختم جس پر فن کاری ہو گئی ہے
غزل
اس بے خودی میں رخصت خودداری ہو گئی ہے
محمد اعظم