EN हिंदी
اس بے خودی میں رخصت خودداری ہو گئی ہے | شیح شیری
is be-KHudi mein ruKHsat KHuddari ho gai hai

غزل

اس بے خودی میں رخصت خودداری ہو گئی ہے

محمد اعظم

;

اس بے خودی میں رخصت خودداری ہو گئی ہے
مشکل ہوئی جو آساں دشواری ہو گئی ہے

اک داغ دل پہ بھی اب اپنا نہیں تصرف
یہ سب زمین گویا سرکاری ہو گئی ہے

اس بوجھ کی نہ پوچھو گٹھری ہے دل یہ جس کو
جتنا کیا ہے ہلکا کچھ بھاری ہو گئی ہے

شکوہ نہیں ستم کا پر اب یہ دیکھتا ہوں
تم کو ستم گری کی بیماری ہو گئی ہے

کوئی طلب نہ حسرت کچھ شوق ہے نہ عادت
اب تیری یاد میری لاچاری ہو گئی ہے

لہجہ کی پیروی سے تپتا ہے میرؔ کوئی
وہ میرؔ ختم جس پر فن کاری ہو گئی ہے