اس بزم میں پاتے نہیں دل سوز کسی کو
یاں شمع ہماری ہے نہ پروانہ ہمارا
کس کے رخ روشن کا تصور ہے یہ دل میں
ہے منزل خورشید سیہ خانہ ہمارا
ناصح کی نصیحت سے ہے ضد اور بھی دل کو
سنتا نہیں ہشیار کی دیوانہ ہمارا
دل لے چکے پھر بوسے کی تکرار ہے بھیجا
دو جنس ہی یا پھیر دو بیعانہ ہمارا
ہم زلف پریشاں کی طرح سے ہیں پریشاں
اب دم کی کشاکش ہے فقط شانہ ہمارا
سو آرزوئے مردہ کو رکھا ہے جو دل میں
تکیہ ہے مقابر کا یہ ویرانہ ہمارا

غزل
اس بزم میں پاتے نہیں دل سوز کسی کو (ردیف .. ا)
شعور بلگرامی