EN हिंदी
اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں | شیح شیری
is bahr-e-be-sada mein kuchh aur niche jaen

غزل

اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں

بشیر سیفی

;

اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں
آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں

گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں
کمرے میں گونجتی ہیں بے نام سی صدائیں

ماضی کی یہ عمارت مہماں ہے کوئی دم کی
دیوار و در شکستہ اور تیز تر ہوائیں

لیتے ہی ہاتھ میں کیوں اخبار پھاڑ ڈالا
کیسی خبر چھپی تھی ہم کس کو کیا بتائیں

شب کی سیہ ندی سے سیفیؔ ابھر کے سوچو
سورج کی روشنی میں سائے کہاں چھپائیں