اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں
آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں
گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں
کمرے میں گونجتی ہیں بے نام سی صدائیں
ماضی کی یہ عمارت مہماں ہے کوئی دم کی
دیوار و در شکستہ اور تیز تر ہوائیں
لیتے ہی ہاتھ میں کیوں اخبار پھاڑ ڈالا
کیسی خبر چھپی تھی ہم کس کو کیا بتائیں
شب کی سیہ ندی سے سیفیؔ ابھر کے سوچو
سورج کی روشنی میں سائے کہاں چھپائیں
غزل
اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں
بشیر سیفی