اس بات کو ویسے تو چھپایا نہ گیا ہے
سب کو یہ مگر راز بتایا نہ گیا ہے
پردہ کی کہانی ہے یہ پردہ کی زبانی
بس اس لئے پردہ کو اٹھایا نہ گیا ہے
ہیں بھید کئی اب بھی چھپے قید رپٹ میں
کچھ نام تھے شامل سو دکھایا نہ گیا ہے
امبر کی یہ سازش ہے عجب چاند کے بدلے
دوجے کسی سورج کو اگایا نہ گیا ہے
حرفوں کی زبانی ہو بیاں کیسے وہ قصہ
لکھا نہ گیا ہے جو سنایا نہ گیا ہے
کچھ اہل زباں آئے تو ہیں دینے گواہی
آنکھوں سے مگر خوف کا سایا نہ گیا ہے
یہ رات ہے ناراض جو دیکھا کہ ہوا سے
دو ایک چراغوں کو بجھایا نہ گیا ہے
غزل
اس بات کو ویسے تو چھپایا نہ گیا ہے
گوتم راج رشی