اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا
میں اس کو دیکھتا ہوں جو بدلے میں مل گیا
جو حسن تو نے شکل کو بخشا وہ بول اٹھا
جو رنگ تو نے پھول میں ڈالا وہ کھل گیا
ناکامیٔ وفا کا نمونہ ہے زندگی
کوچے میں تیرے جو کوئی آیا خجل گیا
قسمت کے پھوڑنے کو کوئی اور در نہ تھا
قاصد مکان غیر کے کیوں متصل گیا
مجھ کو مٹا کے کون سا ارماں ترا مٹا
مجھ کو ملا کے خاک میں کیا خاک مل گیا
مضطرؔ میں ان کے عشق میں بے موت مر گیا
اب کیا بتاؤں جان گئی ہے کہ دل گیا
غزل
اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا
مضطر خیرآبادی