EN हिंदी
اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا | شیح شیری
is baat ka malal nahin hai ki dil gaya

غزل

اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا

مضطر خیرآبادی

;

اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا
میں اس کو دیکھتا ہوں جو بدلے میں مل گیا

جو حسن تو نے شکل کو بخشا وہ بول اٹھا
جو رنگ تو نے پھول میں ڈالا وہ کھل گیا

ناکامیٔ وفا کا نمونہ ہے زندگی
کوچے میں تیرے جو کوئی آیا خجل گیا

قسمت کے پھوڑنے کو کوئی اور در نہ تھا
قاصد مکان غیر کے کیوں متصل گیا

مجھ کو مٹا کے کون سا ارماں ترا مٹا
مجھ کو ملا کے خاک میں کیا خاک مل گیا

مضطرؔ میں ان کے عشق میں بے موت مر گیا
اب کیا بتاؤں جان گئی ہے کہ دل گیا