اس ادا سے عشق کا آغاز ہونا چاہئے
سوز بھی دل میں بقدر ساز ہونا چاہئے
جب محبت کو سراپا راز ہونا چاہئے
کیوں شکست دل کی پھر آواز ہونا چاہئے
آپ کھل جائے گا یہ باب قفس اے ہم نشیں
دل میں پیدا جرأت پرواز ہونا چاہئے
ہر نوائے آرزو کو اضطراب شوق میں
دل کے ہر پردے سے ہم آواز ہونا چاہئے
اذن جلوہ مل چکا ہے اب تجھے اے چشم شوق
کامیاب جلوہ گاہ ناز ہونا چاہئے
عشق سے بے اعتنائی پر کبھی افشا نہ ہو
اتنا سنجیدہ مرا ہم راز ہونا چاہئے
جو مرے جذبات کا اظہار تک ہونے نہ دے
حسن کو اتنا زمانہ ساز ہونا چاہئے
ہر خلش دل کی بنائے کیف کا عنوان ہو
سوز میں شامل نشاط ساز ہونا چاہئے
میرے الہام سخن میں فیض ہے سیماب کا
زیبؔ بزم شعر میں ممتاز ہونا چاہئے
غزل
اس ادا سے عشق کا آغاز ہونا چاہئے
زیب بریلوی