عرفان ہے یہ عشق کے سوز و گداز کا
پردہ اٹھا رہا ہے کوئی امتیاز کا
تاروں سے پوچھئے مری آنکھوں کو دیکھیے
دنیا کو کیا پتہ شب ہجر دراز کا
جانے سے قبل طور پہ موسیٰ یہ دیکھتے
کیا ظرف ہے حواس تجلی نواز کا
سب سرخیاں ہیں خون وفا سی لکھی ہوئی
قصہ ہے دل گداز شہید نیاز کا
سر بے خودی میں آپ کے قدموں پہ جھک گیا
آیا تھا کچھ خیال سا دل میں نماز کا
آنکھیں جھکا نظر نہ ملا دل پہ تیر کھا
پہلا سبق ہے عشق کے راز و نیاز کا
محفل میں دیکھتے ہیں وہ تصویر کی طرح
مرکز ہے ہر نفس نگہ امتیاز کا
دیکھا پھر اس نے قلب کی پھر حرکتیں بڑھیں
زخمہ بنی ہے پھر نگہ ناز ساز کا
ظرف آزمائے سوزش صد برق طور سے
لیجے نہ امتحان دل بے نیاز کا
طالبؔ اگر نظر نہ ہو پامال خواہشات
ہر لمعہ برق طور ہے حسن مجاز کا
غزل
عرفان ہے یہ عشق کے سوز و گداز کا
طالب باغپتی