EN हिंदी
اقرار کسی دن ہے تو انکار کسی دن | شیح شیری
iqrar kisi din hai to inkar kisi din

غزل

اقرار کسی دن ہے تو انکار کسی دن

بدر واسطی

;

اقرار کسی دن ہے تو انکار کسی دن
ہو جائے گی اب آپ سے تکرار کسی دن

چاہا کبھی سوچا کبھی تصویر بنائی
چھوڑا نہ تری یاد نے بے کار کسی دن

پلکوں پہ ستارے لیے راہوں میں کھڑے ہیں
فرصت ہو تو آ جائیے سرکار کسی دن

دنیا میں سدا چلتی ہے چاہت کی حکومت
آ جاؤ منا لیں گے ہم اتوار کسی دن

آیا ہے اکیلا تجھے جانا ہے اکیلا
بس دیکھتے رہ جائیں گے سب یار کسی دن

دولت کے یہ انبار ترا ساتھ نہ دیں گے
گر جائے گی نادان یہ دیوار کسی دن

اچھی نہیں لگتی ہمیں عادت یہ تری بدرؔ
ہر بار کبھی اور تو ہر بار کسی دن