انتظار تھا ہم کو خوش نما بہاروں کا
یہ قصور کیا کم ہے ہم قصور واروں کا
آفتاب چہرہ تھا جن شراب خواروں کا
داغ داغ حلیہ ہے ان کا سیاہ کاروں کا
سعیٔ انفرادی بھی نقش چھوڑ جاتی ہے
بجھ گیا ہے منزل تک نقش رہ گزاروں کا
ایک روز کھو دے گا اعتماد ذاتی بھی
آسرا تکا جس نے دوسرے سہاروں کا
جس میں شہد لب ہوگا کل بڑا ادب ہوگا
آج نا مناسب ہے ذکر ماہ پاروں کا
رہنمائے رہرو میں شمع بزم عشرت نے
حسب حال پایا ہے مدعا ستاروں کا
آپ حضرت زاہد اس سے کچھ نہیں کہتے
شادؔ بھی تو ساتھی ہے ہم گناہ گاروں کا
غزل
انتظار تھا ہم کو خوش نما بہاروں کا
شاد عارفی