انسان نہیں وہ جو گنہ گار نہیں ہیں
وہ کون سا گلشن ہے جہاں خار نہیں ہیں
جو لوگ محبت میں گرفتار نہیں ہیں
وہ لوگ حقیقت کے پرستار نہیں ہیں
دنیا میں میسر ہے ابھی جنس محبت
صد حیف کہ پہلے سے خریدار نہیں ہیں
ٹوٹے ہیں نہ ٹوٹیں گے کبھی بوجھ سے غم کے
نازک ہیں مگر ریت کی دیوار نہیں ہیں
دل شوق سے دیں آپ مگر سوچ سمجھ کر
دنیا میں سبھی لوگ وفادار نہیں ہیں
جب عزم سفر کر ہی لیا آؤ چلیں ہم
طوفان کے تھمنے کے تو آثار نہیں ہیں
چڑھتا ہے کنولؔ کون صلیبوں پہ خوشی سے
سب لوگ مسیحا کے تو اوتار نہیں ہیں
غزل
انسان نہیں وہ جو گنہ گار نہیں ہیں
ڈی ۔ راج کنول