انساں کو اپنی ذات کا ادراک ہی نہیں
اب کوئی واردات المناک ہی نہیں
مظلوم کے لہو کا نہ ہو جس پہ کوئی داغ
ایسی سپاہ وقت کی پوشاک ہی نہیں
اس دور میں حفاظت ایماں کے واسطے
حیدر کی مثل تیغ غضب ناک ہی نہیں
اعمال ہیں سیاہ ہمارے مگر ہمیں
شکوہ ہے مہربانئی افلاک ہی نہیں
رحمت خدا کی جوش میں آئے تو کیسے آئے
سیلاب اشک دیدۂ نمناک ہی نہیں
پہلے بلند کرتا تھا انورؔ صدائے حق
لیکن اب اس میں جرأت بے باک ہی نہیں
غزل
انساں کو اپنی ذات کا ادراک ہی نہیں
انور کیفی